سبق نمبر1: ہجرتِ نبوی ﷺ
مصنف کا نام: مولانا شبلی نعمانیؒ
تصنیف کا نام: سیرۃالنبی
ﷺ
خلاصہ
مولاناشبلی
نعمانی ؒشاعر بھی تھے، لیکن ان کی شہرت کا مدار زیادہ تر اُن کی نثر پر ہے۔ ان کا
شمار اردو کے بڑے نثر نگاروں میں ہوتا ہے۔اس سبق میں مولانا نے تبلیغ اسلام کے لیے پیش آنے والی ابتدائی مشکلات کو بیان کیا ہے۔
مکہ
میں جب اہل کفار کا ظلم وستم مسلمانوں پر زیادہ ہوا تو آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت
کرنے کی اجازت دے دی ۔نبوت کا تیرھواں سال شروع ہوا تو اکثر صحابہؓ مدینے پہنچ چکے
تھے اور اللہ کی طرف سے آپ کو بھی ہجر ت کی اجازت مل گئی۔ادھر قریش مکہ کو جب خبر
ملی کہ مسلمان مدینہ میں طاقت پکڑ رہے ہیں تو اہل قریش خطرہ محسوس کرنے لگے اور
نعوذباللہ آپ کو قتل کرنے کے منصوبے بنانے لگے۔تمام قبائل نے مل کر آپ کو ختم کرنے
کا منصوبہ بنایا تا کہ قبائل سے بدلہ نہ لیا جا سکے۔ کفار مکہ نے آپ کے گھر کا
محاصرہ کر لیا اور باہر نکلنے کا انتظار کرنے لگے۔آپ نے حضرت علیؓ کواپنے بستر پر
سونے کو کہا اور مکہ والوں کی امانتیں واپس کرکے مدینہ آجانے کا حکم دیا۔
آپ
اللہ کی مدد سے گھر سے نکلے اور کعبہ کی طرف دیکھ کر فرمایا :”مکہ! تُو مجھ کو
تمام دنیا سے زیادہ عزیز ہے، لیکن تیرے فرزند مجھ کو رہنے نہیں دیتے۔“
آپ
نے حضرت ابو بکرصدیقؓ کے ساتھ غار ثور میں تین راتیں قیام فرمایا۔اس دوران حضرت
عبداللہؓ اور حضرت اسمائؓ مکہ والوں کی خبریں اور کھانا پہنچاتے رہے۔ مکہ والے آپ
کی تلاش میں نکلے اور غارِ ثور کے دہانے تک پہنچ گئے۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ گھبرا
گئے تو آپ نے فرمایا:”گھبراو نہیں، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ “
مدینہ روانگی کے دوران سراقہ بن جحشم نے آپ کو دیکھ لیا اور گرفتار کرنے کے لیےآگے بڑھاتو گھوڑا ٹھوکر کھا کر گر پڑا۔دوبارہ کوشش کی پھر ایسا ہی ہوا۔سو اُونٹ انعام کے لالچ میں آگے بڑھا تو گھوڑا گھٹنوں تک زمین میں دھنس گیا۔ اس نے آپ سے معافی مانگی اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے غلام عامر بن فہیرہ نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر فرمانِ امن لکھ دیا۔دوسری طرف مدینہ کے لوگوں کا یہ حال تھا کہ روز مدینہ سے باہر آکرآپ کا انتظارکرتے اور شام کو لوٹ جاتے۔ایک دن ایک یہودی نے قَلعے سے آپ کو نشانیوں سے پہچان کر پکارا :”اہل عرب ! لو تم جس کا انتظار کرتے تھے، وہ آگیا۔ “ یہ سننا تھا کہ تمام شہر تکبیر کی آواز سے گونج اٹھا۔
0 تبصرے