سبق نمبر2: مرزا غالب کے عادات وخصائل کا خلاصہ

سبق نمبر2:                               مرزا غالب کے عادات وخصائل

مصنف کا نام:  مولانا الطاف حسین حالیؔ

تصنیف کا نام:  یادگارِ غالبؔ

خلاصہ

مولانا حالی کے اسلوبِ بیان کی سب سے نمایا ں خوبی مدعانگاری ہے۔مولانا حالی نے اس سبق میں مرزا اسد اللہ خان غالب کے اخلاق و عادات بیان کئے ہیں۔ مرزا غالب کے اخلاق نہایت وسیع تھے۔ ہر شخص سے کشادہ پیشانی سے ملتے تھے۔جو شخص ایک مرتبہ ملتا اسے ہمیشہ ملنے کا شوق رہتا تھا۔ دوستوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے اور ان کی خوشی اور غم میں شریک ہوتے ، ان کے خطوط کا جواب دینا اپنا فرض سمجھتے تھے۔

          مروت اور لحاظ ان کی طبیعت میں بہت زیادہ تھا۔ عمر کے آخری حصے میں بھی دوسروں کو اشعار کی اصلاح دیتے۔ان کی آمدنی بہت کم تھی مگر ان کا حوصلہ بڑا تھا۔ سائل ان کے دروازے سے کم ہی خالی ہاتھ جاتے تھے۔ وہ خود تنگ دست رہتے مگر دوستوں سے اچھا سلوک کرتے۔ ۷۵۸۱ءکے بعد مرزا کے ایک دوست کی مالی حالت خراب ہو گئی۔وہ مرزا سے ملنے آیا تو اس نے حقیر کپڑے کا فرغل پہنا ہوا تھا۔مرزا نے انھیں اپنے پاس سے ایک قیمتی چوغہ نذر کیا۔مرزا کے مزاج میں ظرافت اس قدر تھی کہ انھیںحیوان ناطق کی بجائے حیوان ظریف کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ ایک محفل میں مرزانے میرتقی میر کی تعریف کی جبکہ محمد ابراہیم ذوق نے مرزا سودا کو ترجیح دی تو مرزا نے کہا:” میں تو تم کو میری سمجھتا ہوںمگر اب معلوم ہوا کہ آپ سودائی ہیں۔“

مرزا کی آمدنی کم تھی مگر خودداری کو کبھی بھی ہاتھ سے جانے نہ دیتے ۔ شہر کے عمائدین اور امراءسے ان کا میل جول تھا۔کبھی بازار میں بغیر پالکی یا ہوادار کے نہ نکلتے تھے۔مرزا غالب کو پھلوںمیں آم بہت پسند تھا۔ان کے دوست آم تحفے کے طور پر بھیجتے وہ خود بھی فرمائش کر کے منگواتے۔ ایک دفعہ مرزا آموں کے باغ میں ٹہل رہے تھے اور آموں کو دیکھ رہے تھے۔ بادشاہ نے پوچھاکہ مرزا کیا دیکھ رہے ہو تو مرزا نے کہا دیکھ رہا ہوں کسی آم پر میرے باپ دادا کا نام بھی لکھا ہے یا نہیں۔بادشاہ مسکرائے اور اسی روز ایک ٹوکری آموں کی مرزا کو بھجوائی۔مرزا کبھی آموں سے سیر نہ ہوتے تھے۔ ان سے کسی نے پوچھا آموں میں کیا خوبیاں ہونی چاہییں تو مرزا نے کہا :”بھئی! میرے نزدیک تو آم میں صرف دو باتیں ہونی چاہییں، میٹھا ہو اور بہت ہو۔“

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے