سبق نمبر 2 مرزا غالب کے عادات وخصائل کے اہم نثر پارے


 اقتباس۱:

مرزا غالب کے اخلاق نہایت وسیع تھے۔ وہ ہر شخص سے جو اُن سے ملنے جاتا تھا،  بہت کشادہ پیشانی سے ملتے تھے۔ جو شخص ایک دفعہ ان سے ملتا، اسے ہمیشہ ملنے کا اشتیاق رہتا تھا۔دوستوں کو دیکھ کر باغ باغ ہو جاتے تھے اور اُن کی خوشی سے خوش اور غم سے غمگین ہوتے تھے۔

اقتباس۲:

اگر چہ مرزا کی آمدنی قلیل تھی ، مگر حوصلہ فراخ تھا۔ سائل ان کے دروازے سے خالی ہاتھ بہت کم جاتا تھا۔ اُن کے مکان کے آگے اندھے، لنگڑے ، لُولے اوراپاہج مرد عورت پڑے رہتے تھے۔ غدر کے بعد ان کی آمدنی کچھ اوپر ڈیڑھ سو روپے ماہوار ہو گئی تھی اور کھانے پینے کا خرچ بھی کچھ لمبا چوڑانہ تھا، مگر وہ غریبوں اورمحتاجوں کی مدد اپنی بساط سے زیادہ کرتے تھے، اس لےے اکثر تنگ رہتے تھے۔

اقتباس۳:

فواکہ میں آم ان کو بہت مرغوب تھا۔ آموں کی فصل میں ان کے دوست دُور دُور سے ان کے لیےعمدہ عمدہ آم بھیجتے تھے اور وہ خود اپنے بعض دوستوں سے تقاضا کر کے آم منگواتے تھے۔ ایک روز مرحوم بہادر شاہ آموں کے موسم میں چند مصاحبوں کے ساتھ جن میں مرزا بھی تھے، باغ ِ حیات بخش یا مہتاب باغ میں ٹہل رہے تھے۔ آم کے پیڑ رنگ برنگ کے آموں سے لدرہے تھے۔

اقتباس۴:

مرزا کی نیت آموں سے کسی طرح سیر نہ ہوتی تھی۔ اہل شہر تحفتاً بھیجتے تھے۔ خود بازار سے منگواتے تھے۔ باہر سے دُور دُور کا آم بطورسوغات کے آتا تھا، مگر حضرت کا جی نہیں بھرتا تھا۔ نواب مصطفیٰ خاں مرحوم ناقل تھے کہ ایک صحبت میں مولانا فضل حق اور دیگر احباب موجود تھے اور آم کی نسبت ہر ایک شخص اپنی اپنی رائے بیان کر رہا تھا کہ اس میں کیا کیا خوبیاں ہونی چاہئیں۔ جب سب     لگ اپنی اپنی کہ چکے تو مولونا فضل حق نے مرزا سے کہا کہ تم بھی اپنی رائے بیان کرو۔ مرزا نے کہا بھئی میرے نزدیک تو آم میں صرف دو باتیں ہونی چاہئیں، میٹھا ہوا اور بہت ہو۔“

اقتباس۵:

ظرافت مزاج میں اس قدر تھی کہ اگر آپ کو بجائے حیوان ناطق کے حیوان ظریف کہا جائے تو بجا ہے۔ ایک دفعہ جب رمضان گزرچکا تو قلعے میں گئے۔ بادشاہ نے پوچھا مراز تم نے کتنے روزے رکھے؟ عرض کیا پیرومرشد ایک نہیں رکھا۔ ایک دن نواب مصطفی خان کے مکان پر ملنے کو آئے۔ ان کے مکان کے آگے چھتا تاریک تھا۔ جب چھتے سے گزر کر دیوان خانے کے دروازے پر پہنچے تو وہاں نواب صاحب ان کو لینے کے لیے کھڑے تھے۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے